Alfia alima

Add To collaction

بیلوں کی جوڑی

بیلوں کی جوڑی
رام جی سیٹھ کےآنے کی خبر نے چھیدی پور میں ایک ہل چل سی ڈال دی تھی۔ بوڑھا بالا، عورت مرد سب ہی دن میں کئی کئی بار ایک دوسرے سے ان کے متعلق گفتگو کرتے تھے۔ جھگڑو کوری نے مقدمہ بازی کم کردی تھی اور دن میں کئی کئی بار مالا جپنے لگا تھا۔ کھلاؤ بنئے نے سودی روپیہ چلانا بند کردیا تھا اور دیوی جی کی پوجا کو صبح و شام جانے لگا تھا۔ 

دینا کوری کھیت گوڑتے گوڑتے کدال کے ڈنڈے کو سیدھا کرکے کھڑا ہوجاتا تھا اور سکھو اہیر کو بغل والے کھیت میں آواز دے کر پوچھتا تھا ’’کاہے ہو سُکھو ای سچ ہو کہ سیٹھ جی آوت ہیں!‘‘ سُکھّو جو اپنے کھیت میں سے گھاس صاف کرتا ہوتا تھا کھرپی ہاتھ سے رکھ دیتا اور دونوں ہتھیلیاں ایک دوسرے سے رگڑ کر ہاتھ کی مٹی گراکر دینا کے کھیت کی مینڈ پرآکر بیٹھ جاتا تھا اور سیٹھ جی کے متعلق طرح طرح کی باتیں ہونے لگتی تھیں، لونڈے بازاروں میں گولیاں کھیلتے کھیلتے رک جاتے تھے اور سیٹھ کی آمد گولیوں سے بھی زائد دلچسپی اختیار کرلیتی تھی۔ اہیروں کے لڑکے ’’گورو بچھرو‘‘ گاؤں کے میدانوں میں چراتے ہوئے جب ’’برہا‘‘ گاتے ہوتے تھے تو اکثر یہ ہوتا تھا کہ درمیان ہی سے رُک جاتے تھے اور سیٹھ جی کا ذکر چھڑجاتا تھا۔ گرہستنوں کی دلچسپی کا پوچھنا ہی کیا ہے۔ ان میں سے بعض ستّری بہتّری بھی ہوچکی تھیں مگر آج تک انھوں نے زمیندار کی صورت ہی نہ دیکھی تھی، ہر روز صبح سویرے ایک دوسرے کے گھر میں جلدی جلدی جاتی تھیں اور رام جی، سیٹھ کے متعلق کوئی نئی خبر سنا آتی تھیں۔ جوان کوئیں پر پانی بھرتے وقت ایک دوسرے سے پچیسیوں مرتبہ کی سنائی ہوئی باتیں پھر چٹخارے لے لے کر دہراتی تھیں۔ انھیں شب بھر میں کچھ نہ کچھ سوچ لینے یا خواب دیکھ لینے کا موقع مل ہی جاتا تھا۔ بڑی بوڑھیاں جن کی ٹانگیں جواب دے چکی تھیں اور جن کے بازو شَل ہوچکے تھے وہ دن بھر گھر میں بیٹھی سیٹھ جی ہی کا چرخا کاتا کرتی تھیں۔ اور اگر کوئی سننے والا نہ ملتا تو کسی نواسی یا پوتی کو زبردستی پکڑ کر سامنے بٹھالیتی تھیں اور اس کی چوٹی کھول ڈالتی تھیں، پھر گھنٹوں اکڑوں بیٹھی جویں دیکھتی جاتیں اور رام جی سیٹھ اور ان کے ’’پُرکھوں‘‘ کے بارے میں جہاں تک فرسودہ تخیلات کام دیتے نئے نئے افسانے گڑھتی رہتی تھیں۔ 

غرض چھیدی پور سے مردہ گاؤں میں ہفتوں سے ہلچل تھی۔ بے چینی تھی۔ اضطراب تھا۔ زندگی تھی۔ اور یہ سب صرف اس لیے کہ رام جی سیٹھ کروڑپتی تھے۔ جینی تھے۔ چھیدی پور کے مالک تھے اور اپنی ساٹھ برس کی عمر میں پہلی دفعہ وہاں آرہے تھے۔ 

اس اضطراف میں سیٹھ جی کی آمد نے کوئی کمی نہ کی۔ اس لیے کہ گاؤں کے بچے بچے کو یہ خواہش تھی کہ وہ صرف انھیں کئی بار دور و نزدیک سے دیکھ ہی نہ لے بلکہ ان سے کسی نہ کسی طرح گفتگو بھی کرلے اور ان سے دوچار پیسے بھی لے لے۔ ساری عمر میں سیٹھ جی پہلی دفعہ گاؤں آئے تھے اور ممکن تھا کہ یہی آخری دفعہ بھی ہو۔ اس لیے ان سے منتفع نہ ہونا اپنے پر نہیں بلکہ گاؤں پر اور زمیندار ہونے کی حیثیت سے خود ان پر بھی ظلم ہوتا۔ 

اس انتشار میں سیٹھ جی نے خود اور بھی اضافہ کردیا۔ انھوں نے ایک دن سُکھّو کے لڑکے کو گاؤں کے سانڈ کو لاٹھیوں سے مار کر اپنے کھیت سے نکالتے دیکھ لیا۔ انھیں ایسا معلوم ہوا جیسے لاٹھیاں اس سانڈ کے پٹھوں پر نہ پڑیں بلکہ خود ان کے دل پر۔ تلملا اٹھے دَوڑ کر اس لڑکے کے کان پکڑے اور ’’چھاؤنی‘‘ تک اسی طرح کان پکڑے اسے لائے۔ دن بھر اپنے ہاں ایک کمرے میں بند رکھا اور شام کے وقت کہیں چھوڑا مگر دن بھر میں اس لونڈے کو آدھ سیر کی کچوریاں دیں اور تین پاؤ جلیبیاں۔ پھر طرح طرح کے پھل سیب، انار، انگور جوان کے لیے خاص طور پر ہر روز شہر سے موڑ پر آتے تھے، خوب کھلائے۔ اس نے شام کو جو اپنے ہمسنوں سے یہ نئے قسم کی سزا بیان کی تو دوسرے ہی دن سے مجرموں میں باہم مقابلہ ہونے لگا۔ 

جہاں سیٹھ جی گھر سے باہر نکلے اور کوئی نہ کوئی لونڈا ان کے سامنے سے اپنے بوڑھے بیل کو پیٹتا یا سیدھی سادی گائے کی دُم اینٹھتا اور گالیاں دیتا گزرتا دکھائی دیتا تھا۔ یہ بعض بدنصیبوں کو تو صرف ڈانٹ کر یا کان گرما کر چھوڑ دیتے تھے لیکن بعض خوش نصیب ایسے بھی ہوتے تھے کہ وہ چھاؤنی تک گرفتار کرکے لائے جاتے تھے۔ یہ شریر سیٹھ جی کے سامنے رو رو کر مگر تنہائی میں بغلیں بجاکر ان کی ساری سزائیں بھگت لیتے اور سیروں دودھ، مٹھائی اور تازے پھل دن بھر ایک آراستہ پیراستہ کمرے میں بیٹھ کر اس اطمینان سے کھاتے تھے جیسے یہ تمام نعمتیں انھیں کے لیے مخصوص کردی گئی ہوں۔ 

جب دس بارہ روز تک متواتر سزا دیتے دیتے سیٹھ جی تھک گئے اور جرم میں کوئی کمی نہ ہوئی تو انھوں نے گاؤں بھر کے لوگوں کو بلا بھیجا۔ چھاؤنی کے طویل و عریض صحن میں جب سب لوگ آکر اکڑوں بیٹھ گئے تو سیٹھ جی اپنے تخت سے اترکر کھڑے ہوگئے اور واسکٹ کی جیبوں میں دونوں انگوٹھے ڈال کر بولے: 

’’بھائیو! بہنو! (اس پر سکھو اہیر نے دینا کوری کو ایک کہنی ماری اور دینا کوری نے سہدیو پاسی کو ایک کہنی رسید کی۔ تینوں نے مسکراکر ایک دوسرے کو دیکھا اور بھیگی بلی کی صورت بنالی)۔ ’’بھائیو! بہنو!‘‘ سیٹھ جی نے پھر کھانس کر کہا۔ ’’میں نے تم لوگوں کو اس لیے بلایا ہے کہ میں تم سے ایک خاص بات کہناچاہتا ہوں۔‘‘ (اب تو مجمع میں حد سے زائد دلچسپی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ ہرایک نے گردن بڑھا بڑھا کر سیٹھ جی کو دیکھنا شروع کردیا)۔ ’’میں تم سے ایک خاص بات کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ سیٹھ جی نے مجمع کی افراط توجہ سے متاثر ہوکر پھر کہا ’’اور وہ یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جانوروں کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہو۔‘‘ (سہدیو، سکھو اور دینا نے سیٹھ جی کی طرف دیکھ کر اس طرح زور زور سے سر ہلایا جیسے وہ بھی الزام لگانے میں سیٹھ جی کے شریک ہیں اور سارا گاؤں ملزم)۔ سیٹھ جی تین دیہاتیوں کو اپنا ہم خیال دیکھ کر ذرا سا مسکرائےاور پھر بولے۔ ’’بھائیو ۔ بہنو۔ ان جانوروں کے ہاں بھی اسی طرح آتما ہے جس طرح کہ تمہارے ہاں ہے۔ (اس پر سہدیو۔ سکھو اور دینا نے اور زور زور سے سر ہلایا) ’’ان کے بھی درد ہوتا ہے۔ ان کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ مگر تم لوگ انھیں مارتے پیٹتے ہو۔ انھیں ہر طرح کا دکھ دیتے ہو۔ میں نے اسی لئے تم سے یہ بری عادت چھڑانے کے واسطے یہ طے کیا ہے کہ تم میں جو سب سے زیادہ جانداروں کے ساتھ نیکی کرے گا۔ ان کو آرام پہنچائے گا۔ انھیں سکھ دے گا (مجمع کی دلچسپی حد سے زائد بڑھ گئی اور گردنیں اتنی آگے بڑھ گئیں کہ ہر ایک سرگیندے کا پھول معلوم ہونے لگا) میں اسے اپنے جانے سے پہلے اپنے بیلوں میں سے سب سے اچھی جوری دوں گا!‘‘ 

مجمع بھر کا منہ اس اعلان پر کھل گیا اور سب نے ایک ساتھ اتنی لمبی سانس لی کہ سیٹھ جی کی قمیص کا دامن اس طرح ہلنے لگا جیسے خاصی تیز ہوا چل رہی ہو۔ سہدیو نے سکھو سےآہستہ سے کہا ’’ای بیلن کی جوڑی تو ہماری ہوگئی!‘‘ اس نے کہا ’’ابے چل۔ تُہرے سے بہت دیکھاہن!‘‘ وہ بولا ’’اچھا۔ اچھا۔ دیکھی ہو!‘‘ 

چھاؤنی کے اندر تو چپکے چپکے ہی باتیں ہوتی رہیں مگر وہاں سے نکل کر جب سہدیو، سکھو اور دینا تاڑی خانے پر پہنچے تو پھر یہی بحث چھڑ گئی کہ بیلوں کی جوری کون جیتے گا۔ سکھو نے جب سہدیو کا دعویٰ بیان کیا تو سب لوگ ہنسی سے بیتاب ہوگئے۔ ہرشخص اس سے واقف تھا کہ سہدیو سے زیادہ کوئی بھی پاجی،کٹھور اور ظالم گاؤں بھر میں نہ تھا۔ اب ایسا آدمی اور اس کا مدعی ہے کہ وہ جانوروں کے ساتھ نیکی کرنے کا انعام حاصل کرے گا۔ ہنسنے والی بات ہی تھی۔ مگر سہدیو اسی پر مصر تھا کہ بیلوں کی جوڑی اسی کو ملے گی۔ بحث بڑھتی ہی گئی اور جب دوچار لبنیاں ہر ایک نے چڑھا لیں تو ذرا جوش اور بڑھا۔ اور شرطیں لگنے لگیں۔ 

سہدیو یہی کہتا جاتا تھا کہ ’’میں ہی جیتوں گا۔ مجھ سے شرط نہ لگاؤ۔‘‘ مگر جتنا اس کا انکار بڑھتا اتنی ہی سب کا اصرار بڑھتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ بیس آدمیوں نے تگنے اور چوگنے پر شرط لگائی کہ چاہے کوئی جیت لے مگر سہدیو کسی طرح یہ انعام نہیں جیت سکتا۔ 

دوسرے ہی دن سے جانوروں کے ساتھ نیکی کا سلوک گاؤں میں وبا کی طرح پھیلا۔ جھگڑو نے سیٹھ جی کو اپنی طرف سے جاتے دیکھ کر کھلاوں کمہار کی بلی جلدی سے گودی میں اٹھالی اور جتنا وہ غُرّا غرّا کر پنجے ماتی رہی اتنا ہی وہ اسے پیار کرتا رہا اور اپنا سوکھا ہوا منھ طرح طرح سے ٹیڑھا کرکے چمکارتا رہا۔ سیٹھ جی بھی جھگڑو کے ہاتھ سے خون بہتے دیکھ کر ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے اور گھبراکر بولے ’’ابے بھئی اسے چھوڑ دو۔ یہ اس وقت کچھ خفا ہے۔ دیکھو تمہارے ہاتھ سے خون نکل رہا ہے۔‘ 

جھگڑو نے بلی تو جلدی سے چھوڑدی مگر مسکراکر بولا ’’ہجور ہم کاکَرن، ہم کا بلائی دیکھ پریم آوت ہے۔‘‘ 

سیٹھ جی نے اپنا ریشمی رومال جیب سے نکالتے ہوئے کہا ’’یہ چیز ہی محبت کے قابل ہے، مگر اس وقت کچھ خفا تھی جو تمہیں پنجے مار گئی۔‘‘ اور جھگڑو کا زخمی ہاتھ رومال سے لپیٹ کر ایک روپیہ اسے دے کر آگے بڑھ گئے۔ 

جھگڑو تو ایک روپیہ پاکر کچھ زیادہ خوش نہ ہوا لیکن اتنی سی بات جب گاؤں میں مشہور ہوئی تو ہر گھر میں بلی ہی دکھائی دینے لگی۔ سکھو دوسرے گاؤں سے چھ عدد پکڑ لایا اور ان کو دودھ پلانے کے لیے جس اہیر سے دودھ مانگتا وہ سیروں مفت دے دیتا تھا۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی لونڈوں نے یہ حرکت شروع کی کہ وہ چوپایوں کو بجائے میدانوں میں لے جانے کے گاؤں ہی میں گھماتے پھرتے اور جس کے کھیت میں جی چاہتا ہکادیتے۔ جانور سارا سارا کھیت کھا جاتے مگر کوئی چوں نہ کرتا۔ سیٹھ جی کے کانوں تک اگر کسی کی شکایت پہنچتی بھی تو ان کی یہ حرکت جانوروں کے ساتھ نیکی پر محمول کرتے اور مظلوم ظالم و مجرم قرار پاجاتا اور داد رسی کی جگہ ’’ڈانٹ‘‘ پاتا تھا۔ 

مگر یہ تمام باتیں سہدیو کی چالوں کے سامنے بازی طفلاں تھی۔ وہ دوچار دن چپکا چپکا یہ سب کھیل تماشے دیکھا کیا اور کچھ سونچا کیا۔ بالآخر ایک دن جب کہ سیٹھ جی اپنے امرودوں کے باغ کی طرف سے ہوکر گزرے تو انھوں نے سہدیو کو مع ایک عدد جھولی کے زمین پر جھکا ہوا پایا۔ وہ انھیں اپنی طرف آتا دیکھ کر اور بھی زیادہ منہمک بن گیا۔ نہ ان کی طرف اس نے رخ کیا اور نہ ان کے سلام کے لیے اٹھا۔ سیٹھ جی کا استعجاب بڑھا۔ یہ قریب گئے اور قریب گئے۔ مگر جیسے ہی سہدیو سے دو قدم کے فاصلے پر پہنچے اس نے زمین سے نظر اٹھائے بغیر انھیں ڈانٹا ’’ہاں۔ ہاں کہاں چلاآوت ہو؟ سوجھائی نادیت ہے؟‘‘ سیٹھ جی ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے اور انھوں نے غصہ بھری نگاہ زمین کے اس حصے پر ڈالی جہاں سہدیو دونوں ہاتھ پھیلائے اس طرح جھکا تھا جیسے وہ جان دینے کے لیے تیار ہے مگر اس پر راضی نہیں کہ ان کے قدم اس حصہ زمین پر پڑیں۔ انھوں نے دیکھا کہ بہت سی چیونٹیاں وہاں جمع ہیں اور سہدیو کے چھڑکے ہوئے آٹے کو خوش خوش اپنے ننھے ننھے منہ میں دبا دبا کر قریب ہی کے ایک سوراخ میں لے جارہی ہیں۔ سیٹھ جی یہ سماں دیکھتے ہی اپنا غصہ بھول گئے اور وہیں زمین پر بیٹھ کر سہدیو کی جھولی سے آٹا نکال کر خود بھی دیر تک چیونٹیوں کو کھلاتے رہے اور سہدیو سے بالکل دوستانہ لب و لہجے میں گفتگو کرتے رہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس دن کئی گھنٹے سہدیو کے ساتھ گھوما کیے اور دوپہر تک لاکھوں چیونٹیوں کو تلاش کرکےآٹا کھلایا۔ اور جب اس پر بھی سہدیو کی جھولی نہ خالی ہوئی تو تالاب پہنچے اور اس کے مشورے سے پانی ملاکر بقیہ آٹے کی گولیاں بنائیں اور ان کو مچھلیوں کی نذر کردیا۔ 

اب اس دن سے روزانہ صبح کو ان کا یہ معلوم ہوگیا کہ وہ گھر سے اپنی جیبوں میں کچھ اناج بھر کے یا رومال میں تھوڑا سا آٹا باندھ کے نکلتے اور سہدیو کے ساتھ اسی کارخیر میں دس بجادیتے۔ سہدیو ان کا رفیق۔ یار غار۔ مصاحب اور پکا دوست بن گیا۔ وہ ہر روز کوئی زخمی مینڈک، کوئی مجروح کچوا۔ یا کوئی لنگڑا کیڑا تلاش کرکے لے آتا اور بقیہ دن سیٹھ جی کے ساتھ مرہم پٹی میں مشغول رہتا تھا۔ 

گاؤں والوں نے جو یہ حالت دیکھی تو وہ سمجھ گئے کہ بس اب بیلوں کی جوڑی ہاتھ سے گئی اور سہدیو سے بدمعاش کو مل گئی۔ ہر ایک پیچ و تاب کھانے لگا۔ ان میں وہ لوگ جنھوں نے سہدیو سے شرط لگائی تھی وہ پیش پیش تھے۔ وہ اس آسانی سے ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ پھر سہدیو کا اکڑا اکڑا کے چلنا ان سے نہ دیکھا جاتا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں نےآپس میں صلاح کی اور گاؤں کے ’’پروہت‘‘ کے پاس پہنچے اور ان سے سہدیو کی چالوں کا حال بیان کردیا۔ 

پنڈت جی یوں تو ایسے کاموں میں ہاتھ ڈالنے سے پرہیز کرتے تھے مگر سہدیو سے انھیں بھی پرخاش تھی، گاؤں میں اکیلا وہی ایک ایسا تھا جو ان کی رہبری کا قائل نہ تھا۔ وہ ہمیشہ ان سے اس طرح آزادی سے گفتگو کرتا تھا جیسے پنڈت جی کے ہاتھ میں نہ تو ’’سورگ تھی اور نہ نرکھ‘‘ اس لیے انھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور گاؤں والوں کی شکایت لے کر سیٹھ جی کے پاس پہنچے اور ان سے ساری کتھا کہہ ڈالی۔ وہ پیچ و تاب کھاکر اس وقت تو چپ ہو رہے مگر جب دوسرے دن سہدیو نے حسب معمول امرود کے باغ کے پاس انھیں سلام کیا تو انھوں نے منہ پھیر لیا اور آگے بڑھ گئے۔ وہ اس پر بھی جب نہ مانا اور ان کے پیچھے ہولیا تو سیٹھ جی ڈانٹ کر بولے ’’ابے بدمعاش میرے پاس سے دُور ہو! تو مجھے بیوقوف بناتا ہے۔ مجھے تیرے ساری چالیں معلوم ہوگئیں۔‘‘ 

سہدیو چپکا وہاں سے پلٹ آیا مگر اس انداز سے کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ بالکل معصوم ہے اور اپنی سیرت پر بیجا الزام لگائے جانے سے ازحد آزردہ۔ دل میں وہ سمجھ گیا کہ یاروں نے چغلی کھاکر بنے بنائے کھیل کو بگار دیا۔ اور سونے کی چڑیا ہاتھ سے نکل گئی۔ پھر بھی وہ اتنی آسانی سے جیتی ہوئی بازی ہارنے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ یہی سوچ رہا تھا کہ بگڑی بات کیونکر بنے کہ سکھو ،دینا اور جھگڑو کھیسے نکالے دکھائی دیے اور ہر ایک نے مسکرا مسکراکے ’’رام رام‘‘ کیا۔ سہدیو اس مسکراہٹ کا سبب سمجھ کر دل میں تو بہت کڑھا مگر اس کے چہرے پر بھی جوابی مسکراہٹ موجود رہی۔ اور جب سکھو نے تاڑی خانہ چلنے کی تجویز کی تو وہ فوراً تیار ہوگیا۔ 

اس دن تاڑی خانے میں سہدیو کی بڑی گت بنی۔ جو آتا وہ فقرے کستا تھا۔ جو جاتا وہ شرطیں یاد دلا جاتا تھا۔ ہر ایک اسی کا جامِ صحت پیتا تھا۔ کوئی سہدیو کی چیونٹیوں کا نام لے کر ایک ’کُلّہڑ‘‘ پیتا۔ کوئی اس کے مینڈکوں کے نام پر ایک ’’کُجّی‘‘ کوئی اس کے کچووں کے نام کے ساتھ ایک کوزہ۔ اور کوئی منچلا سہدیو کے بیلوں کی جوڑی کہہ کے اس کی طرف تعظیماً جھکتا اور پوری لبنی منہ سے لگا لیتا تھا۔ سہدیو یہ سب سنتا اور مسکراتا رہا تھا۔ جب لوگ اچھی طرح پی کر بدمست ہوگئے تو وہ مسکراتا ہوا کھڑا ہوگیا اور بولا ’’کاہے آج کون سرت لگاوت ہے کہ ہم اب ہوں سیٹھ جی کی جوڑی جیتییں؟‘‘ 

سب نے ہاتھ اٹھادیے اور ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگا۔ سہدیو نے اس دن دس شرطیں اور لگائیں اور سیٹی بجاتا گھر چل دیا۔ 

اس دن سے سہدیو نہ تو تاڑی خانے آیا اور نہ سیٹھ جی کے پاس گیا۔ دن بھر اپنے کتے کو ساتھ لیے اِدھرادھر گھوما رکرتاتھا۔ کبھی خود درخت پر بیٹھا ہوتا تھا اور کتا نیچے زبان نکالے پہرہ داری کرتا ہوتا تھا۔ کبھی خود بھی میدانوں میں دوڑتا ہوتا تھا اور کتا بھی ساتھ ساتھ۔ کبھی خود تالاب میں نہاتا رہتا تھا اور کتا کپڑوں کے پاس لیٹا ان کی حفاظت کرتا ہوتا تھا۔ لوگ کہتے ’’کچھ ہُو ناہیں۔ ہارگیئل ہے۔ اب جی بہلاوت ہے! پَر اب اِی سب کئے کا ہوت ہے؟‘‘ 

اسی حالت میں دن گزرتے گئے اور وہ دن بھی آہی گیا جس کی شام کو سیٹھ جی شہر واپس جانے والے تھے۔ سہدیو صبح سویرے ہی اس دن کتے کو ساتھ لے کر گھر سے نکل گیا اور سیٹھ جی کو ان کی تفریح کے سلسلے میں باغ کے پاس ملا۔ 

اس نے سیٹھ جی کو بہت جھک کر سلام کیا۔ انھوں نے قیام کے آخری دن غصہ اور نفرت کا اظہار مناسب نہ سمجھا اور جوابِ سلام دے دیا مگر سہدیو کی اس سے تسکین نہ ہوئی۔ اس نے بہت ہی آہستہ سے پوچھا ’’سیٹھ جی آج جات ہو۔ بیلن کی جوڑی کہکا ملی؟‘‘ سیٹھ جی جینی سہی پھر بھی زمیندار تھے۔ غصہ سے بولے ’’تجھ سے مطلب؟ تجھے نہ ملے گی!‘‘ 

وہ مسکرایا۔پھر بولا ’’مُداملاک ہم سے کوہو جیاوہ پریمی اور دیالو ناہیں۔ ہجور دیکھیں۔ ای کتا کیسا پاجی ہے۔ پر ہم ایہو سے پریم کرت ہیں!‘‘ 

سیٹھ جی نے کتے کی طرف دیکھا۔ اچھا خاصا، موٹا تازہ سیاہ رنگ کا دیسی کتا تھا۔ اس وقت سیٹھ جی کو بڑی محبت سے دیکھ رہا تھا اور دم کو مورچھل کی طرح ہلا رہا تھا۔ یہ بدمعاش اس طرح کے اچھے کتے کو اور پاجی کہہ رہا تھا۔ بولے: 

’’توخود پاجی ہے۔ یہ کتا اچھا ہی ہے۔ تو اس سے اگر محبت کرتا ہے تو کون سی نئی بات ہے۔‘‘ 

سیٹھ جی کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ سہدیو کی زبان کچھ خاص طرح سے گھومی اور اس کے منہ سے ایک ہلکی سی آواز نکلی۔معاً سہدیو کے نیک کتے میں انقلاب ہوا۔ وہ محبت کی جگہ غصہ کا مجسمہ بن گیا۔ اور اس نے غراکر سیٹھ جی کی داہنی ٹانگ پکڑلی۔ 

سیٹھ جی تھر تھر کانپنے لگے اور بیساختہ چیخ کر بولے ’’دُت ! دُت! ارے مجھے بچاؤ!‘‘ سہدیو اپنی جگہ کھڑا مسکراتا رہا۔ سیٹھ جی نے اس کی طرف دیکھا اور غصہ ہوکر بولے ’’ بدمعاش، لچا! پاجی! تجھے کبھی بھی۔۔۔‘‘ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ پھر سہدیو کے منہ سے ہلکی سی سیٹی نکلی اور کتے کے دانت سیٹھ جی کی بھری بھری پنڈلی میں اور سختی سے چبھنے لگے۔ انھوں نے ٹانگ زور زور سے جھٹکی۔ کتا جونک کی طرح لٹکا رہا۔ انھوں نے حسرت سے ادھر ادھر نظر کی۔ دور تک سوائے اس شریر سہدیو کے اور کوئی نہ دکھائی دیتا تھا۔ تکلیف سے بیچین ہوکر اسی سے گڑگڑاکر بولے ’’رام کے واسطے اس سے مجھے چھڑا دے۔‘‘ وہ متانت سے بولا’’ہجور پھجول دکھت ہوت ہیں۔ ای بڑا کھلاڑی ہے ہجور سے کھیلت ہے!‘‘ اور پھر وہی سیٹی بجادی۔ سیٹھ جی تڑپنے لگے۔ وہ شریر بولا ’’ہاں ہاں، ہجور۔ جن پریسان ہوئیں۔ ہیں ہیں۔ ارے کتا کے چوٹ لگ جائی۔ اوچرن چھوت ہے اور ہجور اہکا لات مارت ہیں۔‘‘ اور پھر سیٹی بجادی۔ سیٹھ جی کی تکلیف سے آنکھیں نکلی پڑتی تھیں، بڑی منت سے بولے۔ 

’’رام کے واسطے بات نہ بنا۔ اس کتے مردود کو ایک لات مار کر مجھے چڑھادے!‘‘ سہدیو نے حد درجہ متعجب صورت بناکر کہا ’’ای کتا ہم ماریں۔ اتنی بڑی ہوشیار ہجور کا سامنے۔ تب ہجور ہم کا بیلن کی جوڑی مل چکی!‘‘ اور پھر وہی سیٹی بجادی سیٹھ جی چیخنے لگے ’’ہائے مرا۔ ہائے مرا۔۔۔ ارے ظالم۔۔۔ مجھے چھڑادے۔۔۔ جوڑی تجھی کو دوں گا۔۔۔ سچ کہتا ۔۔۔ ہوں!‘‘ 

سہدیو نے کہا ’’گنگا کسم؟‘ 

سیٹھ جی نے بے بسی سے کہا ’’گنگا قسم تجھی کو بیلوں کی ۔۔۔ جوڑی ۔۔۔ دوں گا!‘‘ 

یہ سنتے ہی سہدیو نے کتے کو اتنی سخت لات جھاڑی کہ وہ پیں پیں کرتا دُور بھاگ گیا اور خود گرتے ہوئے سیٹھ جی کو گود میں اٹھا کر گاؤں کی طرف چلا۔ 

تھوڑی دیر بعد سیٹھ جی موٹر پر سوار ہوکر شہر کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی سب سے اچھی بیلوں کی جوڑی تاڑی خانے کی جانب چلی۔ کتا آگے آگے بھونکتا جارہا تھا۔ بیل اپنی اپنی خوبصورت گردنیں جھکائے بیچ میں تھے۔ اور سہدیو پیچھے پیچھے۔ مگر اس شان سے کہ بائیں ہاتھ میں تو ایک بیل کی دم تھی اور داہنا ہاتھ مونچھوں پر تھا۔ یہ ہاتھ اس دن صرف دوبار اس مقام سے کھسکا۔ ایک تو تاڑی خانے پہنچ کر تیس ہارئے ہوئے حریفوں سے شرطوں کے روپے وصول کرنے کے لیے یا پھر جھگڑو، سکھو اور دینا کو ’’رام رام‘ کرنے کے واسطے۔ 

جھگڑو اور سکھو تو کچھ ’’کھسیا‘‘ سے گئے مگر دینا مسکراکر بولا ’’ہاں رے تیں ہنس لے۔ پر ہم کا جانت رہن کی (کہ) سیٹھ جی سہرماں رہے پھر بھی بالکل بیل (بیوقوف) ہن!‘‘ 

سہدیو نے مسکراکر پوچھا ’’اور توں (تم؟)‘‘ 

دینا اس پر چپ ہوا مگر جھگڑو نے ہارے ہوئے شاطر کی طرح حددرجہ تلخ لب و لہجے میں اپنےساتھی کے لیے کہا ’’ای؟ ارے ایہو (یہ بھی) بیل ہن۔ ہم لوگ ان ہی کا (انھیں کے) سنگھت میں کھراب گئن۔ بس ان کا اور سیٹھ جی کا کھوب جوڑی بنی۔ دونوں کا دونوں بیل ہن! او (وہ) دیہاتن (دیہاتیوں) کا گھامڑ سمجھن اور ای تم کا اپنا سا مورکھ۔‘‘ 

   1
0 Comments